Type Here to Get Search Results !

مصنوئی بارش آج کے دور کی ضرورت.. پاکستان کیوں پیچھے ؟

 

مصنوئی بارش آج کے دور کی اہم ضرورت ہے 

موسموں پر انسانوں کا قابو پانا ناممکن ہے، تاہم اس پر کسی نہ کسی طریقے سے ضرور اثر انداز ہوا جا سکتا ہے، اور گزشتہ کئی دہایوں سے موسموں کو اپنے مقاصد کے لیے اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہیں۔ طوفانوں کو روکنے سے لے کر طوفان لانے تک ہر حربے استعمال ہورہے ہیں جن میں کچھ نہ کچھ کامیابی بھی ضرور مل رہی ہے جن میں سے کلاؤڈ سیڈنگ کے ذریعے مصنوئی بارش کا کروانا بھی شامل ہے جو یقناً جیو انجینئرنگ کی اب تک کی سب سے مقبول اور کسی حد تک کامیاب ترین کوشش ہے۔

 فضا میں موجود بادل پانی سے ضرور بھرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ اتنے طاقتور نہیں ہوتے کے اسی وقت برس جائیں، اکثر و بیشتر ہم نے دیکھا ہے کے بارش کا پانی ہمیشہ وہاں نہیں پہنچتا جہاں زمین پر اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر طوفان بنتے ضرور ہیں لیکن جہاں انکو برسنا چاهیے وہاں سے بغیر برسایے ختم ہو جاتے ہیں یا پھر کہیں اور ہی برس جاتے ہیں۔

اسی کے بیچ اب انسان مصنوعی بارش کروانے کے عمل کا سہارا لے رہا ہے، کلاؤڈ سیڈنگ یعنی انسانوں کی موسمیاتی نظام میں تبدیلی کی ایک قسم ہے، جس کا مقصد فضا میں موجود کمزور بادلوں کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے بارش کے قابل بنا کر مخصوص علاقے میں بارش کا برسانا ہے

 

پاکستان مصنوئی بارش کرواکر خُشک سالی کو کم کیوں نہیں کرسکتا؟

ٹیکنالوجی کے لحاظ سے پاکستان کسی ملک سے پیچھے نہیں، اسی سبب ملک میں جاری خشک سالی کی کیفیت دور کرنے کے لیے پاکستان نے بھی کلاؤڈ سیڈنگ کا پہلا تجربہ کیا، لیکن بد قسمتی سے پاکستان اب تک ان تجربات سے خاطر خواں کوئی مثبت نتائج حاصل نہیں کرسکا. جبکے اس عمل کو دھورانے کے لیے کافی بار میٹنگز اور اجلاس بلاے گئے لکین وہاں کی جانے والی باتیں صرف زبانی کلامی ہی ثابت ہوئی، جبکے عرب دنیا اور دیگر امریکی ممالک میں کلاؤڈ سیڈنگ کے ذریے بارش کا برسانا عام سی بات سمجھا جاتا ہے 

پاکستان نے سب سے پہلے سال 2000 کے دوران تھر کے علاقوں میں بادلوں پر کلاؤڈ سیڈنگ کے تجربات کیے گئے۔ یہ کلاؤڈ موڈیفیکیشن پروگرام کے ذریعے بارش کو بڑھانے کے لیے پاکستان میں پہلی بار کی جانے والی تجرباتی سرگرمی تھی۔ یہ سرگرمی 1999-2000 میں ملک کے جنوبی حصوں میں تاریخ کی بدترین خشک سالی کے نتیجے کے بعد کی گئی ۔ حکومت پاکستان نے فوری طور پر اس انتہائی اہم تباہی سے نمٹنے کی ضرورت محسوس کی اور ملک میں خاص طور پر خشک سالی کے شکار علاقوں میں مصنوعی بارش کا منصوبہ شروع کرنے کا سوچا۔ 

اس کے بعد سن 2015 کو کراچی سمیت سندھ کے دیگر علاقے شدید اور ریکارڈ توڑ گرمی کی لپیٹ میں آئے، جس کے نتیجے میں 2000 سے زیادہ افراد لو لگنے اور جسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے جاں بحق ہوے. اس دوران سندھ حکومت نے اجلاس بلاتے ہوئے کلاؤڈ سیڈنگ کا فیصلہ کیا اور شہر میں مصنوعی بارش کروانے کے لیے لیے اقدامات اٹھانے کی کوشش کی، تاہم ہمیشہ کی طرح مالی صورت حال اور دیگر دشواریوں کے سبب اجلاس میں کی جانے والی باتیں صرف وہی تک ہی محدود رہیں۔

.

کلاؤڈ سیڈنگ کیا ہے؟ کیسے بادلوں کے ڈھانچے کو تبدیل کیا جاتا ہے؟

کلاؤڈ سیڈنگ میں بارش کے امکان کو بڑھانے کے لیے بادل کے ڈھانچے میں تبدیلی لانا شامل ہے۔ کلاؤڈ سیڈنگ بادلوں میں چھوٹے برف نما ذرات شامل کرتا ہے۔ عام طور پر سلور آئوڈائڈ کے ذرات استعمال ہوتے ہیں۔ جب پانی کے مالیکیول پھیل جاتے ہیں تو وہ زمین کی کشش ثقل کو محسوس کرنے کے لیے اتنے گھنے نہیں ہوتے۔ جب انکو کلاؤڈ سیڈنگ کے استمال سے مالیکیول کو اکھٹا کیا جاتا ہے تو وہ بڑی اور بھاری بوندوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بالآخر وہ اتنے بھاری ہو جاتے ہیں کہ بارش کے طور پر زمین پر گرنے لگتے ہیں



.

بارش کیسے برسائی جاتی ہے  

 مصنوعی بارش یعنی کلاؤڈ سیڈننگ کے عمل کو کامیاب بنانے کے لیے چند چیزیں ضروری ہوتی ہیں

بادل قدرتی طور پر وہاں موجود ہونے چاہیے۔

بادلوں کا درجہ حرارت صفر ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے نیچے ہو۔کیونکہ کلاؤڈ سیڈ نگ کے لیے بادلوں میں برف اور پانی کے ذرات کا موجود ہونا ضروری ہے۔

کلاؤڈ سیڈنگ کے لئے سب سے پہلے ہمارے پاس جہاز، ڈرون یا توپ کی مدد لینا ضروری ہے۔

عام طور پر کلاؤڈ سیڈ نگ کے لیے سلورآیوڈائیڈ، پوٹاشیم آیوڈائیڈ اور خشک برف یعنی ٹھوس کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کی جاتی ہے۔

اس کیمیکل کو چھوڑنے کے لئے جہاز یا کسی توپ کا استعمال کیا جاتا ہے، جب یہ کیمیکل بادلوں پر پہنچ کر منفی پانچ ڈگری سینٹی گریڈ پر ٹھنڈے ہوتے ہیں تو یہ کرسٹل کی حالت میں ڈھلنا شروع ہوجاتے ہیں اس کے ساتھ ہی یہ کیمیکل کے ذرات برف اور اور پانی کو اپنی طرف کھینچ کر جذب کر لیتے ہیں۔

پانی/برف کے ذرات کا وزن بڑھنے کی وجہ سے کشش ثقل اپنی جانب کھینچنے لگتی ہے، یوں چند ہی لمحوں میں بارش کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

 


 کلاؤڈ سیڈنگ کی تاریخ

کلاؤڈ سیڈنگ کے پہلے تجربات 1946 میں امریکی کیمسٹ اور ماہر موسمیات ونسنٹ جے شیفر نے کیے اور اس کے بعد سے ہوائی جہازوں، توپوں اور زمینی جنریٹرز سے کلاؤڈ سیڈنگ کرنے کا باقاعدہ آغاز ہوا. ابتداء میں بارش برسانے اور بادلوں کو طاقتور بنانےے لیے بہت سے کیمکل مادے استعمال ہوئے ہیں، لیکن ٹھوس کاربن ڈائی آکسائیڈ (خشک برف) اور سلور آئوڈائڈ سب سے زیادہ موثر اور کارآمد ثابت ہوے

 

کلاؤڈ سیڈنگ کتنا فائدے مند ثابت ہوسکتی ہے؟

کلاؤڈ سیڈنگ ہمیں بارش برسانے میں مدد فراہم کرتی ہے اور خاص طور پر خشک سالی سے دوچار علاقوں میں بارش کروا کر ہم جانوروں اور کھیتی باڑی کے لئے پانی کا ذخیرہ کر سکتے ہیں

کلاؤڈ سیڈنگ ہماری اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ کسان اپنی فصل کے معیار اور پیداوار کو بہتر بنا سکتے ہیں جسکی وجہ سے وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے زیادہ پیسے کمائیں گے۔

مصنوعی بارشوں کے سبب ہم پہاڑوں پر ہریالی اور برف باری میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں، جِس سے دور دراز علاقوں کو اپنی ضرورت کے لئے سہی وقت پر پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ساتھ ہی سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔

 

مصنوعی بارش کے نقصانات کم نہیں

کلاؤڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی تب تک کام نہیں کرے گی جب تک پیشن گوئی میں صاف آسمان ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے کام کرنے کے لیے صحیح ماحولیاتی حالات کا ہونا ضروری ہے۔

اچھے نتائج کے لیے اُن ہی بادلوں کا ہونا ضروری ہے جو بارش برسانے کے قابل ہوتے ہیں۔ ورنہ سمندری بادلوں جیسے کراچی میں عام طور پر نظر آنے والے بادلوں پر کلاؤڈ سیڈ نگ کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔

اگر ہم چاندی یا پوٹاشیم آئوڈائڈ کو چھوڑنے کے لیے صحیح حالات کہ انتخاب نہیں کرینگے تو فضا میں چھوڑے جانے والا کیمیکل بغیر کچھ کیے زمین پر گر جاتے تھے۔

کیمیکل مواد اور ماحول میں آنے والی اونچ نیچ کی وجہ سے اکثر کلاؤڈ سیڈ نگ کے عمل کو ضائع ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

کلاؤڈ سیڈنگ %100گارنٹی نہیں دیتے کے بارش برس بھی سکے گی یا نہیں۔ بہترین نتائج اس وقت ملتے ہیں جب گھنے بادلوں کو اضافی نیوکلیائی ملتا ہے کیونکہ اسی سبب وہ جلد بارش برسانے کا باعث بنتے ہیں۔ ورنہ آسمان پر نظر آنے والے عام بادلوں پر کلاؤڈ سیڈنگ کے نتائج بہت ہی کم ملتے ہیں۔

کلاؤڈ سیڈنگ کا عمل بہت مہنگا ہوتا ہے، کیونکہ مصنوعی بارش کے بعد ہونے والے مالی فوائد اکثر کلاؤڈ سیڈ نگ پر آنے والی لاگت سے بھی کم ثابت ہوتے ہیں۔

کلاؤڈ سیڈنگ کا عمل آخری اور کامل حل نہیں ہے۔ یہ اصل میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کو خراب بھی کر سکتا ہے اور فضا میں کاربن کی مقدار بڑھنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

 


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.